Iqra Alam

Add To collaction

21-Mar-2024-تحریری مقابلہ بھروسہ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں ایک گوالہ اپنی بیوی کے ہمراہ رہتا تھا اس کے پاس صرف ایک بھینس اور جھونپڑی تھی جو اس کا کل اثاثہ تھے جس کے ساتھ وہ دونوں اپنی زندگی بسر کر رہے تھے گوالہ روزانہ صبح سویرے اٹھتا اور اپنی بھینس کو چراگاہ لے جاتا اور اس کو چرا کر واپس اپنے گھر کیطرف لوٹ آتا اس کے بعد اس کی بیوی بھینس کا دودھ دوہتی اور پھر دونوں تازہ دودھ پی کر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے اور اسی طرح ہنسی خوشی اپنی زندگی بسر کرتے ہیں ایک روز دن کے پہر جب سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا گوالہ بوڑھے برگد کے پیڑ کے نیچے چارپائی بچھاۓ لیٹا تھا اور اپنی سوچوں میں گم آسماں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اچانک اسے گھوڑے بھاگنے کی آواز سنائی دی اور وہ آواز اس کو قریب آتی ہوئی محسوس ہوئی تو وہ فوراً اٹھ بیٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے گھوڑوں پر سوار مسافر اس کے قریب آکر رک گئے ان میں سے ایک مسافر گھوڑے سے اترا اور اس سے کہنے لگا کہ ہم اپنے سردار کے ہمراہ شکار کرنے جنگل گئیے ہوۓ تھے اور ہم راستہ بھٹک گئے ہمیں قریب یہی جھونپڑی دکھائی دی تو اگر تمہاری اجازت ہو تو ہم رات یہاں رک سکتے ہیں؟؟ اس پر گوالے کو بہت خوشی محسوس ہوئی کیونکہ وہ ایک دیہاتی تھا اور مہمان نواز بھی تو وہ انھیں اپنی جھونپڑی میں لے گیا ان کو بٹھایا اور اپنی بیوی سے کہا کہ جلدی سے ٹھنڈا اور تازہ دودھ لے آؤ جب اس کی بیوی دودھ لے کر آئی تو گوالے نے دودھ حاکم اور اس کے سپاہیوں کو پیش کیا اور کہا کے میرے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ میں آپ کی خدمت میں پیش کر سکوں۔ اس پر حاکم نے گوالے کا بہت شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس کے بدلے میں تمہیں ڈھیر سا انعام دیتا لیکن بدقسمتی سے میرے پاس سواۓ ان گھوڑوں کے کچھ بھی نہیں تم ایسا کرو کہ یہ میرے نام کا خط اپنے پاس سنبھال کر رکھو اور جب کبھی تمہیں کسی بھی چیز کی ضرورت محسوس ہو تو بلا جھجک شہر میرے پاس چلے آنا۔  تھوڑی دیر آرام و سکون کرنے کے بعد شام ہوتے ہی گوالہ حاکم اور سپاہیوں کو گاؤں کی سیر کراتا ہے آس پاس خوبصورت کھیت کھلیان اور صاف پانی کہ بیتی ہوئی ندیاں دیکھ کر حاکم بہت خوش ہوتا ہے اور اس منظر سے خوب لطف اندوز ہوتا ہے۔ جونہی رات کا اندھیرا پھیلتا ہے گوالہ واپس اپنی جھونپڑی کا رخ کرتا ہے اس کی بیوی نے کھانا تیار کیا ہوا ہوتا ہے وہ حاکم اور اس کے سپاہیوں کے سامنے کھانا پیش کرتے ہیں اور ساتھ میں دودھ ، دہی لسی، اور مکھن بھی حاکم کھانا کھانے کے بعد بہت خوش ہوتا ہے اور گوالے کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ حاکم اور اس کے سپاہی رات وہی بسر کرتے ہیں اور صبح سویرے گوالے سے اجازت لے کر اپنے شہر کی طرف رخ کرتے ہیں۔ یونہی وقت گزرتا جاتا ہے گوالہ اور اس کی بیوی ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اچانک ایک دن گوالے گی بھینس اونچی چراگاہ میں چارہ چرتے چرتے نیچے کھائی میں گر کر مر جاتی ہے۔ اس پر گوالہ بہت غمزدہ ہوتا ہے اور گھر جا کر اپنی بیوی کو بھی اطلاع دیتا ہے یہ سنتے ہی اس کی بیوی زارو قطار رونے لگتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ آخری سہارہ بھی ہم سے چھن گیا وقت کے ساتھ ساتھ گوالے اور اس کی بیوی پر فاقے آنے لگ گئے ایک روز بیٹھے بیٹھے اس کی بیوی کو خیال آتا ہے کہ شہر سے آۓ ہوۓ حاکم نے تمہیں ایک خط دیا تھا۔ تم ایسا کرو صبح ہوتے ہی اسے لے کر شہر حاکم کے پاس جاؤ اور مدد طلب کرو۔ گوالہ یہ سنتے ہی خوش ہوجاتا ہے ۔ رات وہ بے تابی سے گزارتا ہے اور صبح ہوتے ہی وہ شہر کی جانب روانہ ہوجاتا ہے ۔ شہر پہنچتے ہی وہ حاکم کے محل کے باہر پہنچتا ہے اور ایک سپاہی سے کہتا ہے کہ اس نے حاکم سے ملنا ہے جس پر سپاہی بہت برہم ہوجاتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ تم نے اپنا حلیہ اور شکل و صورت دیکھی ہے اور اسے کہتا ہے کہ حاکم ایسے فقیر لوگوں سے نہیں ملتا۔ اس پر گوالہ اپنے جیب میں سے ایک خط نکال کر اسے دیتا ہے جس پر حاکم کے نام کی مہر لگی ہوتی ہے یہ دیکھتے ہی سپاہی فورا سے محل میں جاتا ہے اور حاکم کو وہ خط دکھاتا ہے اور گوالے کے متعلق بھی بتاتا ہے۔ اس پر حاکم سپاہی سے کہتا ہے اس کو اچھے طریقے سے اندر لایا جاۓ جب گوالہ حاکم کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے تو حاکم اس کی یہ حالات دیکھ کر بہت دکھی ہوتا ہے اور اپنے وزیر سے کہتا ہے کہ اسے نئے کپڑے پہننے کو دو تاکہ یہ صاف ستھرا ہوجاۓ ۔ غسل کرنے اور نئے کپڑے پہننے کہ بعد گوالا حاکم کے پاس بیٹھتا ہے اور اس کو سارا ماجرہ سناتا ہے کہ کیسے وہ اس حال کو پہنچا ۔ یہ سب سنتے ہی حاکم نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ روزمرہ کے استعمال کی چیزیں گھوڑوں پر لاد کر صبح ہوتے ہی گوالے کے ہمراہ بھیجی جائیں۔ جیسے ہی رات ہوتی ہے تو حاکم نماز پڑھنے کے لیے اٹھتا ہے اور جاۓ نماز بچھا کر نماز پڑھتا ہے اور ساتھ میں تسبیح پر ورد کرتا ہے ۔ گوالہ پاس بیٹھے یہ سارا منظر بہت غور سے دیکھتا ہے اور حاکم سے پوچھتا ہے کہ آپ یہ جو اوپر نیچے ہو رہے تھے اور ہاتھ میں پکڑے دانے گرا رہے تھے یہ سب کیا ہے۔ اس پر حاکم کہتا ہے کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور یہ تسبیح ہے جس پر میں اپنے رب کا ذکر کر رہا تھا اور شکر بھی کہ اس نے مجھے اس مال و دولت سے نوازہ ہے۔  اس کے بعد کھانے کا دور چلتا ہے گوالے کے سامنے مختلف قسم کے کھانے لگاۓ جاتے ہیں لیکن وہ کچھ بھی نہیں کھاتا کیونکہ اس کو اپنی بیوی کا بھی خیال ستاتا ہے کہ وہ رات بھوکی گزارے گی اور میں یہان مزیدار کھانوں کا لطف اڑاؤں۔ کھانے سے فارغ ہوکر سونے کی تیاری ہوتی ہے اس کے لیے نرم و ملائم بستر بچھاۓ جاتے ہیں ۔ جب وہ سونے کی کوشش کرتا ہے تو بار بار ایک ہی خیال اس کے ذہن میں آتا ہے کہ اگر رب کے آگے جھکنے سے حاکم کو مال و دولت مل سکتی ہے تو مجھے کیوں نہیں؟ انھی سوچوں میں ڈوبے رات ڈھل جاتی ہے صبح ہوتے ہی وہ حاکم سے اجازت طلب کرتا ہےاور حاکم سے کہتا ہے کہ مجھے ان تمام چیزوں کی ضرورت نہیں ہے ۔ حاکم حیران و پریشان ہوجاتا ہے کہ ایسا کیا معاملہ پیش آیا کہ اس نے ضرورت ہونے کہ باوجود بھی سازو سامان لینے سے انکار کر دیا۔ گوالہ شام ہوتے ہی گھر پہنچتا ہے تو اس کی بیوی خوشی سے پھولے نہیں سماتی اور اس سے کہتی ہے کہ حاکم نے کیا کیا بھیجا ہے اس پر گوالہ اسے کہتا ہے کہ میں وہاں سے کچھ لے کر نہیں آیا ہمیں بھی وہ ذات دے گی جو حاکم کو دیتی ہے اس پر اس کی بیوی کو بہت افسوس ہوتا ہے کہ کتنی بڑی بے وقوفی کی بات کر رہا ہے یہ۔ گوالہ اپنی بیوی کو تسلی دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تم ایسا کرو اپنے بھی پاک صاف کپڑے پہنو اور غسل کر کے آؤ اور ایک چادر بچھاؤ اور اس ذات سے مانگو وہ ہمیں بھی دے گی۔ دونوں نماز پڑھ کر دعا مانگتے ہیں ۔ اور اللّٰہ کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے ہیں کہ اے مالک آج ہم تجھ سے سوال کر رہیں ہیں ہمیں اپنے در سے خالی ہاتھ نہ لوٹانا تو تو ہر ایک کو عطا کرنے پر قادر ہے تیرے خزانوں میں تو کسی بھی شے کی کمی نہیں تو تو کن کہے تو بس وہ ہوجاۓ۔ دونوں نماز پڑھ کر دعا سے فارغ ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور گوالے کی بیوی جو بھی روکھی سوکھی روٹی ہوتی ہے کھانے کے لیے لاتی ہے دونوں میاں بیوی کھانا کھا کر رات ہوتے ہی سوجاتے ہیں ۔رات کا کوئی پہر ہوتا ہےکہ جھونپڑی کے باہر دو آدمی  زمین کھود رہے ہوتے ہیں جہاں پر ان دونوں آدمیوں نے کچھ چھپا کر رکھا ہوتا ہے جیسے ہی زمین کھود کر وہ ہٹتے ہیں تو وہاں ایک چمکتی ہوئی سونے کی دیگ ہوتی ہے وہ اس دیگ سے مٹی ہٹاتے ہیں اور جیسے ہی اس کو کھولتے ہیں تو اندر سے ایک دم اژدھا نکل کر ان کی طرف بڑھتا ہے وہ اژدھے کو دیکھتے ہی ڈر جاتے ہیں اور وہاں سے بھاگ جاتے ہیں ۔رات گزر جاتی ہے اور صبح آسمان پر سورج کی کرنیں پھوٹتی ہیں تو گوالہ اور اس کی بیوی دونوں نیند سے بیدار  ہوتے ہیں وہ باہر  دیکھتے ہیں کہ جھونپڑی کے باہر کوئی چیز چمک رہی ہے وہ اپنی بیوی کے ہمراہ باہر جا کر دیکھتا ہے کہ وہاں پر سونے کی دیگ پڑی ہوتی ہے جس کے اندر بہت سے قیمتی جواہر اور زیورات ہوتے ہیں ۔ گوالہ  یہ سب جواہرات دیکھ کر پہلے تو حیراں  ہوجاتا ہے لیکن پھر وہ سوچتا ہے کہ یہ سب تو اس ذات کہ مہربانی ہے وہ میرے حالات بدلنا چاہتا ہے ۔ گوالہ شہر کے لیے نکلتا ہے اور وہ تمام جواہرات اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور ان کو بیچ کر گاؤں میں ایک حویلی تعمیر کرتا ہے بہت سی بھینسیں اور گھوڑے خریدتا ہے اور ہنسی خوشی اپنی بیوی کے ہمراہ زندگی بسر کرتا ہے اور ہر وقت اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے ۔ دوسری طرف شہر میں حاکم کو خیال آتا ہے کہ گوالہ نجانے کیسی زندگی بسر کر رہا ہوگا وہ اپنے سپاہیوں کے ہمراہ اس کے گاؤں کی جانب سفر کرتا ہے اور وہاں پہنچ کر چونک جاتا ہے کہ وہ جھونپڑی جہاں گوالہ رہتا تھا ایک حویلی میں بدل چکی ہے اور وہاں ڈھیروں ڈھیر مال مویشی بھی ہے وہ جونہی حویلی میں داخل ہوتا ہے تو گوالہ دوڑ کر حاکم کے گلے لگ جاتا ہے اور اس کا بہت شکریہ ادا کرتا ہے ۔ کھانے کے بعد گوالہ سارہ قصہ حاکم کے گوش گزار کرتا ہے کہ کیسے وہ آج اس مقام پر پہنچا ۔ یہ سب سنتے ہی حاکم کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہتے ہیں اور وہ گوالے کو اپنے سینے سے لگا لیتا ہے ۔
اور اس طرح سے گوالہ امیر ہوجاتا ہے اور لوگوں کی مدد کرتا ہے اور اپنی بیوی کے ہمراہ ہنسی خوشی زندگی بسر کرتا ہے ۔

   0
0 Comments